Sentence alignment for gv-eng-20101002-165914.xml (html) - gv-urd-20101006-193.xml (html)

#engurd
1Pakistan: Dr. Aafia Siddiqui Case – A Veiled Mysteryپاکستان : ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کا — ایک پوشیدہ راز
2“It is my judgment that Dr Siddiqui is sentenced to a period of incarceration of 86 years,” (for the attempted murder of US officers in Afghanistan) said Judge Richard Berman, US District Court Judge of a Federal Court in Manhattan on Sept. 23 2010. Pakistani citizen Dr. Aafia Siddiqui denounced the trial saying “(an appeal would be) a waste of time.”یہ میرافیصلہ ہے کہ ڈاکٹر صدیقی کو چھیاسی سال کی قید کی مدت کی سزا ہونی چاہیے،“ (افغانستان میں امریکی حکام کے قتل کی کوشش کے لئے) 23 ستمبر 2010 ء کو مین ہیٹن میں ایک فیڈرل کورٹ کے امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج رچرڈ برمن نے کہا، پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے مقدمے کی مذمت یہ کہتے ہوئے کی ”(ایک اپیل کرنا) وقت کی بربادی ہوگا۔
3I appeal to God.”میں خدا سے اپیل کرتی ہوں۔“
4As soon as the court verdict was broadcast on media, anger mounted among the Pakistani citizens and thousands of people came out on streets protesting against the 86-year sentence of Dr. Aafia Siddiqui.جیسے ہی عدالت کا فیصلہ میڈیا پر نشر کیا گیا ، پاکستانی شہریوں پر غصہ سوار ہو گیا۔ اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھیاسی سال کی قید کی سزا کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئے۔
5اس حکم کے اعلان کے بعد چند منٹوں کے اندر اندر، صدیقی کی بہن فوزیہ نے اپنی ماں کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کیا، جس میں اس نے صدیقی کو وآپس لانے کے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر حکومت پر تنقید کی۔
6Within few minutes after the ruling was announced, Siddiqui's sister Fauzia addressed a press conference along with her mother, where she criticized the Pakistan government for not fulfilling their promises to bring Siddiqui back. As a result of public outcry against the sentence, Pakistan government came under duress at home and the Interior Minister Rehman Malik has requested USA to repatriate Dr Aafia Siddiqui to Pakistan.سزا کے خلاف پبلک کی چلاہٹ کے نتیجہ میں، پاکستانی حکومت گھر میں دباؤ میں آ گئی اور وزیر داخلہ رحمان ملک نے امریکہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان واپس بھیجنے کی گزارش کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بگرام کا بھوت یا قیدی نمبر چھ سو پچاس کے طور پر بھی جانا جاتا ہے ، جو
7Composite picture of Aafia Siddiqui from her wanted poster at the FBI Website.ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر وانٹڈ پوسٹر سے عافیہ صدیقی کی جامع تصویر۔
8Image via Wikipedia.امیج وائیا وکیپیڈیا۔
9According to reports, 12-year old Ahmed (Dr Aafia's son) was handed over to his aunt Fauzia Siddiqui in September 2008 after years of detention in a US military base in Afghanistan.رپورٹس کے مطابق، بارہ سالہ احمد (ڈاکٹر عافیہ کے بیٹے) کو افغانستان میں ایک امریکی فوجی اڈے میں سالوں کی قید کے بعد ستمبر 2008 کو اسکی خالہ فوزیہ صدیقی کے حوالے کر دیا گیا۔
10Later on, media reported that a little girl named Fatima, was dropped off in front of the home of Siddiqui's sister and the girl's DNA matched that of Ahmed (Dr Aafia's son).اسکے بعد، میڈیا نے رپورٹ کی، کہ ایک چھوٹی بچی جسکا نام فاطمہ ہے، کو صدیقی کی بہن کے گھر کے سامنے ڈروپ کیا گیا۔ اور اس لڑکی کے ڈی۔
11این۔
12Meanwhile, a Pakistani Senator and chairman of the Pakistani Senate's Standing Committee on Interior, Senator Talha Mehmood, “slammed the US for keeping the child in a military jail in a cold, dark room for seven years.”اے احمد (ڈاکٹر عافیہ کے بیٹے) سے میچ کر گئے ہیں۔ اسی اثناء میں ، ایک پاکستانی سینیٹر اور پاکستانی سینیٹ کے داخلہ پر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین، سینیٹر طلحہ محمود ، نے “بچے کو ایک فوجی جیل میں سات سال کے لئے ایک سرد ، اندھیرے کمرے میں رکھنے کے لئے امریکہ پر تلخ تنقید کی.”
13After the return of two of her children, Aafia's family began to hope that she will also return soon and continued the contacts with Pakistan government in order to ensure Aafia's safety.عافیہ کے دو بچوں کی واپسی کے بعد،عافیہ کے خاندان نے یہ امید لگا لی کہ اسے بھی جلدہی وآپس کر دیا جائے گا۔ اور عافیہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی حکومت سے رابطے قائم رکھے۔
14But all their hopes ended in ashes with the news of Aafia's imprisonment of 86 years.مگر عافیہ کی چھیاسی سالہ قید کی خبر سن کے ان کی تمام امیدیں راکھ میں مل گئیں۔
15Pakistani media and bloggers have a mixed reaction on this issue, some claiming that Aafia has been a subject of injustice while others view this incident as a lesson to learn the values of social justice.پاکستانی میڈیا اور بلاگرز کا اس مسئلے پر ملا جلا ردعمل ہے، کچھ کا یہ دعوی ہے کہ عافیہ صدیقی ظلم کا ایک موضوع ر ہی ہے جبکہ دوسرے سماجی انصاف کی اقدار کو جاننے کے لئے عبرت کے طور پر اس واقعے کو دیکھتے ہیں۔
16Shaukat Hamdani writes at Express Blog:شوکت ہمدانی ایکس پریس بلاگ پر لکھتے ہیں:
17“Regardless of what went on in the international media, it should be made clear that Dr Aafia has never been charged with terrorism.”بین الاقوامی میڈیا پر جو کچھ ہوا کے علاوہ، یہ واضع ہو جانا چاہیے کہ ڈاکٹر عافیہ پر کبھی بھی دہشت گردی کا الزام نہیں لگایا گیا۔
18Rather, she is charged with snatching a US warrant officer's rifle in mid -2008 while she was detained for questioning in Afghanistan's Ghazni province and firing it at FBI agents and military personnel.بلکہ 2008 کے درمیان جب وہ افغانستان کے غزنی صوبے میں سوالات کے لیے قید تھی اس پر 2008 میں امریکی حکام سے وارنٹ رفل چھیننے اور اس سے ایف۔
19However, none of the personnel were hit.بی ۔
20Hence the nickname given to her by the American media ‘Lady al-Qaeda' was totally uncalled for and must have influenced the jury.آئی کے ایجنٹس اور ملٹری کارکنوں پر فائرنگ کرنے کا الزام ہے۔ تاہم، کسی بھی کارکن کو گولی نہیں لگی۔
21What is sad is that being such a core ally of the United States in the war against terror, our government has been able to achieve nothing in this regard, and the treatment a Pakistani citizen has received is just appalling.”اس طرح امریکی میڈیا کی طرف سے اسے نک نیم دیا گیا 'لیڈی القاعدہ‘ اس نام سے اسکو نہیں پکارہ جانا چاہیے تھا اور یہ ضرور سنائی میں بھی اثر اندوز ہوا ہوگا۔
22کیا غمگین ہے کیا دہشت گردی کے نام پہ جنگ میں امریکہ کا بنیادی آلائی ہونا، ہماری حکومت اس سلسلے میں کچھ حاصل کرنے کے قابل نہیں، اور جو ٹریٹمنٹ پاکستانی شہری کو حاصل ہوا ہے وہ بہت غمزدہ ہے۔“
23Faisal Kapadia writes:فیصل کپاڈیا لکھتے ہیں:
24Nobody can deny that the way she was treated in Bagram was despicable but whether the Pakistan government can actually secure the release of an individual who has been tried and convicted by a U.S court is the stuff of hilarity.کو ئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ جسطرح بگرام میں اس کے ساتھ سلوک ہوا وہ نیچ تھا مگر کیا واقع ہی پاکستانی حکومت اصل میں ایک فرد کی رہائی کو یقینی بنا سکتی ہے جیسے امریکی حکومت کی طرف سے سزا دی اور اسکی کوشش کی گئی ہو ۔
25Especially if the person concerned, is a U.S national.جو کہ لطف اندوز ہونے کا مواد ہے۔
26Beenish Ahmed mentions some points to ponder:خاص طور پہ جب وہ شخص امریکی قومی ہو۔
27“Siddiqui's case has compelled some Pakistanis to look beyond social judgments to issues of social justice.بینیش احمد کچھ غور و فکر کے نقاظ کا ذکر کرتی ہے :
28”صدیقی کیس نے کچھ پاکستانیوں کو سماجی فیصلے کے بعد سماجی انصاف کے مسائل پرنظر ثانی کے لیے مجبورکیا ہے۔
29Siddiqui's personal story aside, the curious circumstances of her arrest and the gaping holes in the evidence withheld as classified has become a rallying point for anti-American sentiment in Pakistan.”صدیقی کی ذاتی کہانی کے ایک طرف ، اس کی گرفتاری کے متجسّس حالات اور ثبوت میں کچھ خلا کو مخفوظ کر لیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہ درجہ بندی پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کے لیے ایک حمایتی نقطہ ہے۔“
30Views of the western writers are equally significant in this issue who are debating on the justice system of US courts in view of the alleged crimes of Aafia Siddiqui and the nature of her punishment.مغربی مصنف کی فکر اس معاملے میں اتنی ہی اہم ہے۔ جوعافیہ صدیقی کے مبینہ جرائم کے پیش نظر اور اس کی سزا کی نوعیت کے بارے میں امریکی عدالت کے انصاف کے نظام پر بحث کر رہے ہیں۔
31According to Stephen Lendman's report:سٹیفن لیڈمن کی رپورٹ کے مطابق:
32“Her case is one of America's most egregious examples of horrific abuse and injustice, climaxed by her virtual life sentence for an alleged crime she never committed.”“اس کا معاملہ امریکہ کی طرف سے شدید بدسلوکی اور ظلم میں سب سے زیادہ قابلِ اعتراض مثال ہے ، ایک مبینہ طور پر جرم کے لئے اس طرح سے عمر قید کی سزا کی انتہا ہے۔
33On Houston Criminal Lawyer, John Floyd and Billy Sinclair tells that the unusually long sentence is greater than necessary, cruel and unusual:جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں۔“ ہیوسٹن فوجداری وکیل ،جان فلائڈ اور بلی سینکلیر بتاتے ہیں کہ غیر معمولی لمبی سزا ضرورت ، ظلم اور خلاف معمول سے بڑھ کر ہے :
34“The 86-year sentence imposed upon her by Judge Berman is just an unwarranted and cruel continuation of that torture..” جج برمن کی طرف سے اس پر عائد کردہ 86 سال کی سزا صرف ایک غلط اور ظالمانہ تشدد کا سلسلہ ہے۔
35It is shameful, and her case will remain blight on our criminal justice system and the reputation of the United States throughout the world community until she is released.”یہ شرم کی بات ہے ،اس کا معاملہ ہمارے مجرمانہ انصاف کے نظام کو تباہ کر دے گا اور عالمی برادری بھر میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ساکھ کو بھی جب تک وہ رہا نہیں ہو جاتی۔”
36A poster from Dr. Aafia's siteڈاکٹر عافیہ کی ویب سائٹ سے ایک پوسٹر
37The Pakistani government now needs to demand the repatriation of Aafia with immediate effect.وونے رڈلے کاونٹرکرنٹ۔ او۔
38The U.S. needs to shut up, back down, and show some humility by returning the Daughter of Pakistan.آر۔ جی میں اپنی ایک حالیہ پوسٹ جسکا کا ٹائٹل ہے کہ ”آج عافیہ، اور امریکی شہری کل“ میں لکھتی ہیں:
39And with a bit of luck, innocent U.S. citizens travelling abroad will not get caught up in the fallout of this violation of international law and human rights.پاکستانی حکومت کو اب فوری طور پر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی درخواست کی ضرورت ہے ۔ امریکہ کو بس کرنے ، پیچھے ہٹنے، اور پاکستان کی بیٹی کو واپس کرنے میں کچھ انکساری ظاہر کرنے کی ضرورت ہے ۔
40The case of Dr. Aafia has been mysterious from the very beginning but as a citizen or a state if we continue to overlook such cases, it will only ascend the list of missing persons in Pakistan and give rise to chaos in the society.اور تھوڑی سی قسمت کے ساتھ ، بے گناہ امریکی شہری بیرون ملک سفر میں اپ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کی اس خلاف ورزی کے نتیجہ میں نہیں پکڑے جائیں گے۔ ڈاکٹر عافیہ کاکیس آغاز سے ہی پر اسرار رہا ہے۔
41لیکن اگر ایک شہری یا ریاست کے طور پرہم اس طرح کے معاملات کو نظر انداز کرتے رہے ،توپاکستان میں لاپتہ افراد کی فہرست میں اضافہ ہو جائے گا اور معاشرے میں انتشار کو جنم دے گا۔